(ڈاکٹر سید نیاز محمد ہمدانی)

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔انسان کے اسی شرف اور عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خلقتِ آدم کے بعد فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کے سامنے سر بسجدہ ہو جائیں۔اللہ تعالیٰ نے اس اشرف المخلوقات انسان کے اند ر ایک ملکوتی جوہررکھ دیاہے جو ہر لحظہ اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔اس کے ساتھ اس نے اس انسان کی اند ر حیوانی سرشت بھی رکھ دی ہے۔ملکوتی جوہر اور حیوانی سرشت ہر وقت آپس میں بر سر پیکار رہتے ہیں۔مقامِ انسانیت یہ ہے کہ اس معرکہ خیر و شر میںانسان کا ملکوتی جوہر اس کی حیوانی سرشت پر غالب رہے۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جائے،یعنی حیوانی سرشت ملکوتی جوہر پر غالب آجائے توانسان مقامِ انسانیت
سے گر جاتا ہے۔اس قسم کے انسانوں کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ لوگ چوپائے ہیں بلکہ چوپایوں سے بھی بد تر ہیں۔
جب انسان انسانیت سے منحرف ہوا تو اسے دوبارہ انسانیت کی راہ پر لانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کی بعثت اور آسمانی کتب کے نزول کا سلسلہ شروع کیا۔جن لوگوں نے اللہ کی اس ہدایت کو قبول کیا اور انسانی عظمت اور شرف کی راہ پر واپس آگئے وہی مومن کہلاتے ہیں۔ہدایت ِ ربانی کے قبول کر نے والے مومنین کے درجات یکساں نہیں ہیں۔ان میں سے بعض تو حق و ہدایت کے اس پیغام میں اس طرح ڈوب جاتے ہیںکہ نہ صرف یہ کہ خود ہدایت پر آجاتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی نمونہ عمل بن جاتے ہیں۔ایسے ہی افراد میں سے ایک فرد رسول اللہ کے جلیل القدر صحابی حضرت عمار ابن یاسر بھی ہیں۔
جب رسول اللہ نے وادی مکہ میں شرک اور بت پرستی کے خلاف آواز بلند کی اور لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کے مقدس کام کا آغاز کیاتو اس وقت حضرت عمار ابن یاسر کی عمر 44سال تھی۔جلد ہی حضرت عمار، ان کے والد حضرت یاسر اور ان کی والدہ حضرت سمیہ نے اسلام کی دعوت قبول کرلی۔ابو جہل جو مکہ کا ایک بااثر سردار تھا،نہ صرف اسلام کا مخالف تھابلکہ اسلام قبول کر نے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں بھی پیش پیش تھا۔
ابو جہل نے حضرت عمار،ان کے والد اور ان کی والدہ پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی مگر وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔رسول اللہ کا جب بھی ان کے ہاں سے گزر ہوتا تو ان کو حوصلہ دیتے اور فرماتے : اے یا سر اور آل یاسران مصائب پر صبر کرویقینا اللہ نے تمہارے لئے جنت تیار کر رکھی ہے۔آخر کار حضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمیہ ابوجہل کے ظلم و ستم کی چکی میں پستے ہوئے شہید ہو گئے اور حضرت عمار موقع پاکرمسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئے۔
جب رسول اللہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو حضرت عمار یاسر بھی مدینہ چلے گئے۔جس طرح مکہ میں انہوں نے انتہائی پامردی کے ساتھ ابو جہل کے مظالم کا مقابلہ کیا تھا اسی طرح مدینہ میں عزم و ہمت کے ساتھ اسلام کی سر بلندی کے لئے مصروف ِ عمل ہو گئے۔آپ کے فضائل و کمالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیںکہ اصحابِ رسول میں کوئی ایسی نیکی اور فضیلت نہ پائی جاتی تھی جو حضرت عمار میں نہ پائی جاتی ہو۔نیز حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ اگر عمار کے سامنے نیکی کے دو کام رکھے جائیں اور ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے کہا جائے تو عمار بڑی نیکی کا انتخاب کریں گے۔
مدینہ منورہ میں آنے کے بعد جب اسلام کی پہلی مسجد،مسجد قبا کی تعمیر کا کام شروع ہوا توحضرت عمار یاسر نے بھی جوش و ولولے کے ساتھ مسجد کی تعمیر کے کام میں بھر پور حضہ لیا۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق دوسرے صحابہ ایک ایک پتھر اٹھا کر لارہے تھے جبکہ حضرت عمار یاسر دودو پتھر اٹھا کر لا رہے تھے۔ رسول اللہ نے ان کو اس حال میں دیکھا تو ان کے سر اور بدن سے مٹی جھاڑتے ہو ئے فرمایا : عمار تمہاری مصیبت ! تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔تم انہیں اللہ کی طرف بلاتے ہو گے اور وہ تمہیں جہنم کی طرف بلاتے ہوں گے۔حضرت عمار کی فضیلت میں رسول اللہ کی یہ حدیث بھی مشہور ہے کہ جنت تین افراد کی مشتاق ہے: حضرت علی،حضرت عمار اور حضرت سلمان فارسی۔حضرت عمار یاسر رسول اللہ کی زندگی میں صف اول کے مجاہدین میں شمار ہوتے تھے اور غزوات نبوی میں ہمیشہ پیش پیش ہوتے تھے۔
حضرت علی کے دور حکومت میں جب مسلمان واضح طور پر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے تو حضرت عمار یاسر حضرت علی کی جماعت میں شامل ہو گئے۔اس وقت ان کی عمر اگرچہ80سال سے متجاوز ہو چکی تھی لیکن وہ جوانوں جیسے جوش اور ولولے کے ساتھ حضرت علی کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک ہوئے۔جب حضرت علی او رامیرِ شام کی فوجیں صفین کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ء ہوئیں توحضرت عمار یاسر نے لشکرشام کے پرچم کی طرف اشارہ کر کے لشکر شام کے کمانڈر سے کہاکہ میں رسول اللہ کی زندگی میں بھی تین مرتبہ اس پرچم کے خلاف جنگ کر چکا ہوںاور آج پھر اس کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ ہوں۔
9صفر 37ہجری کو جب جنگ صفین کی شدت اپنے پورے عروج پر تھی حضرت عمار یاسر لشکر شام کے سامنے آئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ سے مناجات کرنے لگے: ’’یا اللہ تو جانتا ہے کہ اگر مجھے اس بات کا علم ہوجائے کہ تیری رضا اس میں ہے کہ میں اپنے آپ کو اس دریا میں پھینک دوں تو میں ایسا کر گزروں گا۔یا اللہ تو جانتاہے کہ اگر مجھے اس بات کا علم ہوجائے کہ تیری رضا اس بات میں ہے کہ میں اپنی تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اس طرح اس پر اس طرح زور دوں کہ تلوار میری پشت سے نکل آئے تو میں ایسا کر گزروں گا۔یا اللہ میں جانتا ہوں کہ آج کے دن کوئی عمل تیری نظر میں ان فاسقوں کے خلاف جنگ کرنے سے افضل نہیں ہے۔‘‘
یہ کہہ کر حضرت عمار یاسر نے لشکر شام پر بھرپور حملہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔شہادت کے وقت ان کی عمر مبارک 84سال تھی۔جیسے ہی حضرت عمار یاسر کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو امیرِ شام کے لشکر میں کھلبلی مچ گئی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمار یاسر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان مسلمانوں کے ہر فرد کو معلوم تھاکہ:عمار تمہاری مصیبت ! تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔تم انہیں اللہ کی طرف بلاتے ہو گے اور وہ تمہیں جہنم کی طرف بلاتے ہوں گے۔‘‘ حضرت عمار یاسر کی شہادت کے بعد لشکرِ شام کو اپنے باغی ہو نے کا یقین ہو گیا۔لیکن امیر ِشام کے شاطرانہ ذہن نے ایک بار پھر کام دکھا یا اور اس نے یہ اعلان کرا یا کہ عمار کے قاتل ہم نہیں بلکہ علی ہیں جو انہیں میدان جنگ میں لے کر آئے۔ اس پر حضرت علی ؑ نے فرمایا: اگر یہ بات صحیح مان لی جائے تو پھر حضرت حمزہ کے قاتل بھی رسول اللہ قرار پائیں گے جو انہیں میدان جنگ میں لے کر گئے تھے۔‘‘
٭ ٭ ٭ ٭