( ڈاکٹر سید نیاز محمد ہمدانی)
جب مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ آج کے دور میں نائب امام کون ہےتو میرا جواب ہوتا ہے کہ جس کے پاس امام علیہ السلام کی طرف سے نائب امام ہونے کا تقرر نامہ ہو ۔کتنی عجیب بات ہے کہ ایک یونین کونسل کے نائب ناظم کے لیے تقرر نامہ ہوتا ہے ۔ کسی شخص میں جرئت نہیں کہ وہ اٹھ کر کھڑا ہوجائے اور کہے کہ میں نائب ناظم ہوں ۔یونین کونسل کا نائب ناظم تو پھر بھی ایک بڑا عہدہ ہے، نائب قاصد یعنی چپڑاسی کا بھی تقرر نامہ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی ادارے میں نائب قاصد (چپڑاسی ) مقرر ہوتا ہے تو اس کوبھی تقررنامہ (appointment letter) جاری کیا جاتا ہے۔لیکن امام علیہ السلام کی مظلومیت دیکھیے کہ لوگ خود سے نائب امام بن بیٹھتے ہیں اور ۔ ۔ ۔ ۔
عام طور پر شیعہ عوام کے ذہنوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ مجتہد، خاص طور پر مرجع تقلید نائب امام ہوتا ہے۔ اس طرح جو شخص کسی مجتہد کی تقلید کر رہا ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ وہ امام زمانہ(علیہ السلام ) کے نائب کی پیروی کر رہا ہے اور اس کی بات سے ذرا بھی ادھر ادھر ہونے کو امام زمانہ کی نافرمانی سمجھتا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نائب امام والی بات بالکل غلط اوربے بنیاد ہے ۔اس تحریر میں ہم اس بات کا مختصر جائزہ لیں گے ۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت 8 ربیع الاول 260ہجری میں ہوئی۔ اسی دن سے حضرت حجت امام زمان (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)کے دور امامت اور ان کی غیبت صغریٰ کا آغاز ہوگیا۔ آپ اپنے دور امامت کے شروع سے ہی غیبت صغریٰ میں تھے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کو اور ولادت کے بعد خود ان کو بھی پوشیدہ رکھا گیا ، صرف چند انتہائی با اعتماد افراد کے سواکوئی اس حقیقت سے باخبر نہیں تھا۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام علیہ السلام سے متعلق سب معاملات غیبت صغریٰ کے مصداق ہیں ۔لیکن بحیثیت امام آپ کی غیبت صغریٰ کا دور8 ربیع الاول 260 ہجری سے شروع ہوا ، 15 شعبان 329 ہجری تک جاری رہا۔ یہ عرصہ 69 سال چار ماہ اور 8 دنوں پر مشتمل ہے ۔ اس عرصہ میں حضرت حجت علیہ السلام نےایک کے بعد ایک، چار نائب مقرر فرمائے جو شیعہ عوام و خواص کے امام علیہ السلام سے رابطے کا کام کرتے تھے۔ان کے نام اور مدت نیابت کی تفصیل یہ ہے:
(1) عثمان بن سعید عمری ۔ یہ گیارہ سال کی عمر سے امام علی نقی علیہ السلام کے اصحاب کے زمرے میں داخل ہوئے۔امام حسن عسکری علیہ السلام کو بھی آپ پر بہت اعتماد تھا ۔امام حسن عسکری علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے حضرت حجت علیہ السلام کی ولادت کو پوشیدہ رکھا تھا ۔صرف چند خاص افراد تھے جنہیں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی میں حضرت حجت کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ عثمان بن سعید عمری ان میں سے ایک تھے اور انہیں کئی بار حضرت حجت کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
(2) محمد بن عثمان بن سعید عمری : جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے یہ حضرت حجت علیہ السلام کے پہلے نائب جناب عثمان بن سعید کے فرزند تھے ۔ان کے والد کی وفات کے بعد حضرت حجت علیہ السلام نے انہیں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ ان کی وفات 304 یا 305 ہجری میں ہوئی۔
(3) حسین بن روح: محمد بن عثمان بن سعید سمری کی وفات کے بعد حضرت حجت علیہ السلام نے حناب حسین بن روح کو جو علم اور تقویٰ میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اپنا نائب مقرر فرمایا۔ ان کی وفات 326 ہجری میں ہوئی ۔
(4) علی بن محمد سمری : یہ حضرت حجت کے چوتھے اور آخری نائب تھے ۔ ان کی وفات 15 شعبان 329 ہجری میں ہوئی ۔ ان کی وفات سے چھ دن قبل امام علیہ السلام نے انہیں ان سے فرمایا کہ چھ دن بعد تمہاری وفا ت ہو جائے گی اور تم اپنے بعد کسی کو میرانائب مقرر نہ کرنا کیونکہ تمہاری وفات کے ساتھ میری غیبت کبریٰ شروع ہو جائے گی اور جب اللہ کا حکم ہو گا میرا ظہور ہو گا۔
امام علیہ السلام کے ان چار نائبین کو نواب اربعہ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں چار نائب۔ چوتھے نائب علی بن محمد سمری کی وفات کے دن سے ،یعنی 15 شعبان 329 ہجری سے کوئی نائب امام نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی نیابت امام کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا اور کذاب ہے اور اگر کوئی خود تو ایسا دعوی نہیں کرتا لیکن اس کے ارادتمند اسے نائب امام کہتے ہوں اور یہ بات اس کے علم میں آجائے اور وہ تردید کرسکنے کے باوجود تردید نہ کرے تو وہ بھی جھوٹا اور کذاب ہے۔
نیابت عامہ کا شوشہ:
کہا جاتا ہے کہ چوتھے نائب کی وفات کے بعد امام علیہ السلام کا نائب خاص تو کوئی نہیں ہے لیکن اب ان کی نیابت عمومی ہے اور سب مراجع تقلید ان کے عمومی نائب ہیں۔ یہ بے دلیل اور بے بنیاد بات کہنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ نیابت عمومی کے نام سے نیابت کا منصب اپنے پاس رکھا جائے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے چوتھے نائب کی وفات سے قبل ان سے یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری وفات کے بعد میری نیابت خاصہ ختم ہوجائے گی لیکن علماء و فقہاء کو میری نیابت عمومی حاصل ہوگی ۔لہٰذا نیابت عمومی کی بات بالکل بے بنیاد ہے۔ثانیا ً اگر نیابت عامہ نا م کی کوئی چیزہو بھی تو اس کے معنی کیا ہیں؟ اس کے معنی سمجھنے کے لیئے اس مثال پر غور کریں :
فرض کریں پاکستان کے صدر مملکت یا وزیراعظم امریکہ کے دورے پر جاتے ہیں ۔ وہاں جاکر وہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہیں۔ اس خطاب میں وہ کہتے ہیں کہ آ پ سب امریکہ میں پاکستان کے سفیر ہیں ، آپ کے اچھے برے عمل سے لوگ پاکستانی قوم کے بارے میں اچھی یا بری رائے قائم کریں گے ، لہٰذاآپ کو امریکہ میں ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ امریکہ میں رہنے والا ہر پاکستانی ایک تختی پر اپنے نام کے ساتھ سفیر پاکستان لکھ کر اپنے گھر کے دروازے پر لگا لے ، اور امریکی حکام سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں مذاکرات شروع کردے اور امریکی حکومت سے مطالبہ کردے کہ میں پاکستان کا سفیر ہوں مجھے سفیر والا پروٹوکول دیا جائے؟
سفارت عمومی یا نیابت عمومی نام کی کوئی چیز ہوتی ہے تو وہ اس قسم کی ہوتی ۔ اس سے کسی شخص کو سفیر یا نائب والی اتھارٹی اور اختیارات حاصل نہیں ہو جاتے ۔ امام علیہ السلام کی نیابت عامہ نام کی کوئی چیز اگرہے تو وہ اسی قسم کی نیابت ہے اور وہ امام علیہ السلام کے ہر ماننے والے کو حاصل ہے جیسا کہ ان احادیث سے ظاہر ہے: (1) شقرانی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کا ایک محب اہل بیت تھا ۔ لیکن گناہ و بدکاری کے معاملے میں لا ابالی رویہ رکھتاتھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
ان الحسن من کل احد حسن و انہ منک احسن لمکانک منا وان القبیح من کل احد قبیح وانہ منک اقبح لمکانک منا
ترجمہ: اچھا کام کسی سے بھی ہو اچھا ہی ہوتا ہے لیکن تم سے ہو تو زیادہ اچھا ہے اس لیئے کہ تمہیں ہم سے نسبت ہے اور براکام کوئی بھی کرے وہ برا ہی ہوتا ہے لیکن تم کرو تو زیادہ برا ہے اس لیئے کہ تمہیں ہم سے نسبت ہے ۔ (بحار الانوار 349:47)
اسی بات کو ایک حدیث میں آپ نے اس طرح بیان فرمایا ہے : کونوا لنا زینا ولاتکونوا علینا شینا
ترجمہ: ہمارے لیئے زینت بنو ہمارے لیئے باعث شرمندگی نہ بنو۔ (بحارلانوار 151:65)
بعض لوگ نیابت عامہ کو ثابت کرنے کے لیئے اس روایت کا سہارا لیتے ہیں کہ حضرت حجت علیہ السلام نے فرمایا کہ نئے پیش آنے والے مسائل میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر میری حجت ہیں۔ انھم حجتی علیکم۔لیکن یہ بھی محض ایک فریبکاری ہے۔ اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آجائے اور تمہارے ارد گرد کوئی ایسا شخص رہتا ہو جو جو ہماری احادیث، ہمارے علوم اور احکام اسلامی کو جانتا ہو تو اس نئے پیش آنے والے مسئلہ میں اندھا دھنداور جاہلانہ عمل نہیں کرنا بلکہ اس شخص سے حکم شرعی معلوم کر کے اس کے مطابق عمل کرنا ہے ۔اگر ایسا نہ کروگے تو قیامت کے دن یہ بہانہ نہیں کرسکوگے کہ میں اس مسئلہ کا حکم نہیں جانتا تھا۔ تم سے یہ کہہ کر تمہارا بہانہ ختم کر دیا جائے گا کہ فلاں شخص موجود تھا اس سے علم حاصل کیوں نہ کیا؟یہ ہیں حجت کے معنی ۔ اس میں نیابت کہاں سے آ گئی ۔
یہ بات بھی مدنظر رہے کہ جب امام علیہ السلام نے یہ ارشاد مبارک فرمایا اس زمانے میں احادیث آئمہ کتابوں کی صورت میں ہر ایک کی دسترس میں موجود نہ تھیں ۔ لہٰذا احادیث آئمہ کو جاننے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ ان احادیث کے علماء کی طرف رجوع کرکے ان سے پوچھا جائے ۔ لیکن دور حاضر میں جب کہ آئمہ کی احادیث کتب کی صورت میں موجود ہیں اور ان کے تراجم بھی موجود ہیں ، تو یہ کتب بھی امام علیہ السلام کی حجت ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی کے گھر میں نہج البلاغہ کا ترجمہ موجود ہے اور وہ تقویٰ کی زندگی نہیں گزارتا تو اس پر حجت تمام ہے اس لیئے کہ تقویٰ کے بارے میں مفصل رہنمائی اس کے گھر میں موجود ہے ۔(اس حدیث کے بارے میں مزید تفصیل کےلیئے ملاحظہ فرمائیں ہماری کتاب : تحقیق مسائل تقلید)
حجت کے معنی میں بہت وسعت اور عمومیت پائی جاتی ہے ۔ بنیادی طور پر حجت اس دلیل کو کہتے ہیں جس کی موجودگی میں کسی کے لیے عذر اور بہانے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنے ملازم سے کہتا ہے کہ بازار سے ایک کلو پھل لے آؤ۔ اب ملازم بازار جا کر ایک کلو سیب لے آتا ہے۔ مالک اس پر یہ اعتراض نہیں کرسکتا کہ تم سیب کیوں لائے ہو؟ اس لیے کہ اس نے ایک کلو پھل لانے کو کہا تھا اور ایک کلو سیب لا کر ملازم نے اس کا حکم پورا کردیا۔ اب حجت ملازم کے حق میں اور مالک کے خلاف ہے۔لیکن اگر مالک اسے یہ حکم دیتا کہ ایک کلو آم لے آؤ اور ملازم ایک کلو آم کی بجائے ایک کلو سیب لے آئے تو اس صور ت میں حجت مالک کے حق میں ہوگی اور وہ ملازم کا مواخذہ کرسکتا ہے۔
حجت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ایک شخص کسی ایسے سرکاری ادارے میں کام کرتا ہے جہاں نخواہ کم ہے لیکن ناجائز آمدنی کے مواقع بہت زیادہ ہیں اور لوگ ان سے بھر پور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔ لیکن اسی ادارے میں ایک شخص نہایت ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتا ہے اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کوئی حرام کی کمائی نہیں کرتا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب ان کا حساب لے گا تو اس وقت حرام کمانے والوں کی طرف سے اگر یہ کہا جائے کہ ہماری آمدنی کم تھی ،جائز آمدنی میں گزارہ ممکن نہیں تھا اس لیے حرام کمانے پر مجبور تھے ۔اس وقت اللہ تعالیٰ اس ایماندار اور حلال کی آمدنی پر اکتفا کرنےوالے شخص کو حجت کے طور پر ان کے سامنے لے آئے گا کہ یہ بھی تمہاری طرح تھا اور تمہارے حالات جیسے حالات رکھتا تھا۔ اس کے باوجود حرام سے اجتناب کر کے رزق حلال کے ساتھ عزت کے ساتھ اپنے معاملات چلاتا رہا۔ اگر تم چاہتے تو تم بھی ایسا کر سکتے تھے ۔اس سرکاری ادارے میں کام کرنےوالے اس ایماندا ر شخص دوسروں پر اللہ کی حجت ہے، لیکن اس کے اللہ کی حجت ہونے کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ اسے اس دنیا میں بھی ان لوگوں پر کوئی حاکمیت اور اتھارٹی حاصل ہوگئی ہے۔
ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں : ایک باایمان مسلمان خاتون کسی ادارے میں کام کر تی ہے ۔وہ اپنے فرائض انجام دیتے وقت شرعی حجاب کی پوری طرح سے پابندی کرتی ہے ۔ اسی ادارے میں اور بھی مسلمان خواتین کام کرتی ہیں جو حجاب کی پابندی نہیں کرتی ہیں اور ان کا بہانہ یہ ہے کہ حجاب کے ساتھ کام کرنا ان کے لیے مشکل یا ناممکن ہے ۔ قیامت کے دن اگر وہ اللہ کے سامنے یہ عذر لنگ پیش کریں گی تو اللہ تعالیٰ اس باحجاب خاتون کو حجت کے طور پر ان کے سامنے کھڑا کر دے گا کہ یہ بھی اسی ادارے میں اور انہی حالات میں تھی مگر اس نے شرعی حجاب کی پابندی کی ۔ اگر تم چاہتیں تو تم بھی ایسا کر سکتی تھیں ۔ اب اس باحجاب خاتون کے حجت خدا ہونے کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ اس خاتون کو اپنے ادارے میں کام کرنے والی دوسری خواتین پر کوئی حاکمیت یا اتھارٹی حاصل ہو گئی۔
ایک اور مثال بھی لے لیجئے : اگر آپ یا آپ کے خاندان کا کوئی شخص بیمار ہوجائے تو آپ پر اپنا اور خاندان کے بیمار افراد کا علاج کروانا واجب ہے، اگر آپ علاج نہیں کرواتے تو اللہ کے ہاں گناہگار ہیںاورسزا کے مستحق۔لیکن اگر علاج مہنگا ہو، مشکل ہو اور دسترس سے باہرہو تو آپ معذور ہوں گے ۔ لیکن اگر آپ کے قرب و جوار میں جہاں تک آپ آسانی سے آجا سکتے ہو ں، کسی شخص یا تنظیم نے فری ڈسپنسری یا ہسپتال بنوایا ہوا ہے اور آپ وہاںسے علاج کروا سکنے کے باوجود علاج نہیں کرواتے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ سے بازپرس کرے گا۔ آپ کوئی بہانہ بنائیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ سے کہہ دے گا کہ فلاں شخص یا تنظیم کا فری شفاخانہ موجود تھا تم نے علاج کیوں نہیں کروایا۔ یعنی یہ شفاخانہ ، خواہ کسی غیر مسلم فرد یا تنظیم کا ہو ، اللہ کی طرف سے آپ پر حجت ہے ۔اب اس شفاخانے کے حجت ہونے کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ اس شفاخانہ کے مالک فرد یا تنظیم کو دنیا میں آپ پر حکومت کرنے کا اختیار بھی ہے۔
اگرچہ ان مثالوں سے بات کافی حد تک واضح ہو گئی ہے لیکن ایک اور مثال بھی دیکھ لیجیے: آپ کسی اعلیٰ سرکاری یا معاشرتی منصب پر فائز ہیں اور ظاہری مال و دولت کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ صاحب حیثیت ہیں ۔ آپ کاکوئی گھریلو ملازم ، خانساماں، مالی، ڈرائیور وغیرہ ایک دین دار اور باعمل شخص ہے اور دینی مسائل کا علم رکھتاہےاور اس بات کا علم آپ کو بھی ہے۔ پھر آپ کو کوئی مسئلہ پیش آجاتا ہے ، آپ اپنے اس ملازم سے جس کی حیثیت آپ سے بہت کم تر ہے،اس مسئلہ کا حکم پوچھ سکتے ہیں لیکن نہیں پوچھتے اور بغیر علم کے کوئی غلط قدم اٹھا لیتے ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ آپ کے اس ملاز م کو آپ پر حجت کے طور پر پیش کردے گا کہ میرا یہ بندہ جو میرے احکام کا علم رکھتا تھا تمہارے گھر میں رہتا تھا،جب تم جانتے تھے کہ وہ ان مسائل کا علم رکھتا ہے تو اس سے پوچھا کیوں نہیں؟اب یہ ملازم آپ پر اللہ کے سامنے حجت ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسے آپ پر حکومت اور حکمرانی کا حق بھی حاصل ہو گیا۔علماء کے حجت ہونے کا بالکل یہی مطلب ہے ۔علماء اس لحاظ سے حجت ہیں کہ اگر کوئی شخص احکام شرعی کا علم نہیں رکھتا تو اس پر لازم ہے کہ علماء سے علم حاصل کرے ۔ اگر علم حاصل نہیں کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ فرمائے گا کہ تمہارے معاشرے میں علماء موجود تھے، تم نے ان سے علم حاصل کیوں نہیں کیا۔اس طرح حجت ہونے کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ علماء کو ان پر کوئی اقتدار اور حاکمیت حاصل ہوگئی ہے ۔
بنابریں زمانہ غیبت کبریٰ میں کوئی نائب امام نہیں ہے ۔ نیابت عمومی نام کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، بالفرض اس کی کوئی حقیقت ہوبھی تو وہ ہر شیعہ کو حاصل ہے ، کہ وہ امام علیہ السلام کے ساتھ نسبت کی وجہ سے ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرکےان کے لیئے زنیت بنے ان کے لیے بدنامی کا سبب نہ بنے ۔علماء کے لیے اگر نیابت عمومی ہے تو وہ اس حدتک کہ وہ آئمہ معصومین کے احکام کو بیان کرنے کے ذمہ دار ہیں اور یہ نیابت عمومی قم یا نجف میں بیٹھےچند بزرگ افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو احکام دین کا علم رکھتا ہے،خواہ بظاہر وہ آپ کا ملازم اور چپڑاسی ہی کیوں نہ ہو، یہ نیابت اسے حاصل ہے اور وہ آپ پر حجت ہے ۔
زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی :
یہاں اس حدیث کا ذکر واور اس کی مختصر تشریح کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر حجت خدا نہ ہو تو زمین اہل زمین سمیت تباہ ہو جائے ۔اس حدیث کی رو سے ہر دور میں زمین پر حجت خدا کا ہونا ضروری ہے ۔
حجت کے جو معنی ہم نے سطوربالا میں واضح کیے ہیں ان کی روشنی میں اس حدیث کے معنی اچھی طرح واضح ہوجاتے ہیں ۔اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ ہر دور میں زمین میں اللہ کی ہدایت بھی موجود رہے گی اور اس ہدایت کے مطابق عمل کرنے والےافراد بھی موجود رہیں گے ۔ قرآن شریف اللہ کی حجت ہے ، اسی طرح گزشتہ آسمانی کتابیں تحریف کے باوجود اللہ کی حجت ہیں ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ اورآئمہ معصومین کے فرامین اور ارشادات اللہ کی حجت ہیں، انسانی عقل اللہ کی حجت ہے۔ کوئی انسان جس تک اللہ کی کتاب یا کسی نبی کی کوئی حدیث اور ہدایت نہ پہنچی ہو جب وہ کوئی غلط کام کر رہا ہوتا ہے تو اس کی عقل اسے بتا رہی ہوتی ہے کہ وہ غلط کا م کر رہا ہے ۔ اس کے باوجود اگر وہ اس غلط کام کو کر ڈالے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ کرے گا کہ جب تمہاری عقل تمہیں بتا رہی تھی کہ یہ کام غلط ہے تو پھر تم سے وہ غلط کام کیوں انجام دیا؟یہی وجہ ہے کہ دیوانہ شخص اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ نہیں ہے اس لیے کہ اس پر حجت تمام نہیں ہے۔
اسی طرح ہر ملک کا آئین اور قانون بھی اس ملک کے حکمرانوں اور عوام پر اللہ کی حجت ہے ۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پاکستان کے سب حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں سے سوال کرے گا کہ جب تم نے اپنے آئین میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ تمہارے ملک میں کوئی خلاف اسلام پالیسی نہیں بنے گی تو تم کیوں خلاف اسلام پالیسیاں بناتے اور چلاتے رہے ؟ جب تمہارے آئین کی شق 62 اور 63 میں تھا کہ صادق اور امین افراد ہی ارکان اسمبلی بننے کے اہل ہوں گے تو تم جھوٹے اور بے ایمان لوگوں کو ووٹ کیوں دیتے رہے ۔الیکشن کمیشن جھوٹے اور بے ایمان افراد کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت کیوں دیتا رہا ؟اللہ تعالیٰ بھارت کے حکمرانوں سے پوچھے گا کہ جب تمہاری کتاب بھگوت گیتا میں لکھا تھا کہ ظلم نہیں کرنا ، جب تم نے اپنے آئین میں لکھ دیا کہ تمہارے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ہوگا ، کسی کا حق ضائع نہیں کیا جائے گا بھارت کے ہر شہری کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی تو پھر تم بھارت کے مسلمان شہریوں پر کیوں ظلم کرتے رہے ؟ اس طرح بھگوت گیتا اور بھارت کا آئین بھارتی حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں پر اللہ کی حجت ہے ۔اسی طرح دنیا میں جتنےبھی قانون ہیں ، خواہ وہ ملکی ہوں ، علاقائی ہوں یا عالمی ہوں ، وہ سب اللہ کی حجت ہیں ۔ یہ بات ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ہر دور میں زمین میں اللہ کی حجت موجود رہے گی لیکن اس حدیث میں لفظ حجت کوصرف امام معصو م میں منحصر کرکے د حدیث کےوسیع مفہوم کو تنگ کرنا کسی لحاظ سے درست نہیں ہے ۔
حجت کے معنی و مفہوم کو جاننے کے لیے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
مسعدہ بن زیادہ سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا : فللہ الحجۃ البالغہ ( حجت بالغہ یعنی ہر لحاظ سے کامل اور پوری حجت اللہ کے لیے ہے۔انعام :149 ) کے کیا معنی ہیں ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا :
ان اللہ تعالیٰ یقول للعبد یوم القیامہ اکنت عالما ؟ فان قال نعم قال افلا عملت بما علمت
وان قال لاقال افلا تعلمت حتیٰ تعمل ،فیخصمہ وذالک حجۃ اللہ البالغہ (بحارا لانوار جلد 1،صفحہ 178)
ترجمہ:قیامت کے دن اللہ بندے سے پوچھے گا : کیا تم علم رکھتے تھے ؟ اگر وہ کہے ہاں تو اللہ تعالیٰ کہے گا پھر تو نے اپنے علم کے مطابق عمل کیوں نہیں کیا؟ اور اگر اس نے کہا : نہیں تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ پھر تو نے علم حاصل کیوں نہ کیا تاکہ علم کے مطابق عمل کرتا ۔اس طرح اللہ تعالیٰ اسے لاجواب کردے گا پس یہ ہے حجت بالغہ۔