ڈاکٹر سید نیاز محمد ہمدانی

ابن سماک عباسی خلیفہ ہارون کے دور کے ایک نامور عالم تھے۔زہد و تقویٰ اور دنیا سے بے رغبتی ان کا نمایاں وصف تھا۔ان کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ روز مرہ کی زندگی کی سادہ مثالوں کی مدد سے انتہائی مؤثر انداز سے وعظ و نصیحت کرتے تھے۔ان کے مواعظ لوگوں کے قلوب و اذہان کو بہت متاثر کرتے تھے۔ان کی شخصیت کے اسی پہلو کی وجہ سے انہیں عوام اور خواص دونوں میں بہت مقبولیت حاصل تھی اور خلیفہ ہارون بھی ان کی بہت عزت کرتا تھا۔
ایک دن ہارون اپنے خواص اور مصاحبین کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا کہ اچانک ابن سماک بھی محفل میں پہنچ گئے۔ہارون ان کے احترام کے لئے اٹھا اور دیگر اہل محفل بھی احتراماً کھڑے ہوگئے ۔ ہارون نے ابن سماک کو محفل میں عزت اور تکریم کے ساتھ بٹھایا۔سلام دعا اور احوال پرسی کے بعدہارون نے ابن سماک سے درخواست کی کہ اسے نصیحت کریں۔’’کسی مناسب لمحے پر ضرور نصیحت کروں گا۔‘‘ابن سماک نے جواب دیااور خاموش ہوگئے ۔
محفل ایک بار پھر اپنے اصلی رنگ کی طرف لوٹ گئی ۔ ہر کوئی اپنے ذوق اور ہارون کی خوشنودی کے پیش نظر کہہ سن رہاتھا ۔ تھوڑی دیر گزری کہ ہارون کو پیاس محسوس ہوئی۔اس نے خادم کو پانی لانے کا حکم دیا۔ خادم نے فوراْ پانی کا جام ہارون کی خدمت میں پیش کردیا۔ہارون نے پانی کا جام اٹھایا اور اسے اپنے ہونٹوں کے قریب کردیا۔جیسے ہی ہارون پانی پینے لگا ابن سماک نے کہا :خلیفہ ! ذرا رک جائیے۔ہارون نے ہاتھ روک لیا۔’’ اگر خدانخواستہ آپ کو اس وقت کوئی ایسی بیماری لاحق ہوجائے جس کی وجہ سے آپ سخت پیاس کے باوجود پانی نہ پی سکیں اور اس بیماری کا علاج ایک ہی طبیب کے پاس ہو اور وہ اس شرط پر آپ کا علاج کرنے پر تیار ہو کہ آپ اپنی آدھی سلطنت اسے دے دیں تو آپ کیا کریں گے؟‘‘ ابن سماک نے ہارون سے سوال کیا۔’’ جان ہے تو جہان ہے،ظاہر سی بات ہے کہ میں آدھی سلطنت اسے دے کر اپنا علاج کروائوں گا‘‘ ۔ہارون نے جواب دیا۔ہارون کا جواب سننے کے بعد ابن سماک نے کہا: بسم اللہ، پانی نوش فرمائیے۔ہارون نے پانی پیا اور خالی جام خادم کے سپرد کردیا۔جب ہارون پانی پی چکا تو ابن سماک ایک بار پھر گویا ہوئے:’’ خلیفہ ! یہ بتائیے کہ یہ پانی جو آپ نے پیا ہے،آپ کے جسم کے اند ر اپنا کام مکمل کر لینے کے بعد جب یہ پانی آپ کے جسم سے باہر نکلنے لگے،اگر اس وقت آپ کو کوئی ایسی بیماری لگ جائے کہ یہ پانی باہر نہ نکل سکے اور اس بیماری کا علاج بھی اسی طبیب کے پاس ہو جس نے پہلے آپ کا علاج کیا تھا،اور وہ اس شرط پر آپ کا علاج کر نے کو تیار ہوکہ آپ اپنی باقی ماندہ آدھی سلطنت بھی اسے دے دیں تو آپ کیا کریں گے؟‘‘ ’’ ظاہر سی بات ہے اس کی شرط قبول کرکے اپنا علاج کروائوں گا۔‘‘ ہارون نے جواب دیا۔اب ابن سماک کے لہجے میں ایک تبدیلی آئی اور انہوں نے نہایت حکیمانہ لہجے میں کہا: ’’ اے خلیفہ ! جس سلطنت کا آدھا حصہ ایک جام پانی پینے پر اور آدھا حصہ ایک بار پیشاب کرنے پر قربان کیا جاسکتا ہو کیا وہ اس قابل ہے کہ اس کے لئے اللہ کے بندوں پر ظلم کیا جائے،بے گناہ لوگوں کو قتل کیا جائے،اس کے لئے اللہ کی نافرمانی کی جائے یا اس کے لئے ایسے اعمال انجام دئیے جائیں جن کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور جہنم کا عذاب ہو۔‘‘
جو شخص بھی ابن سماک کی اس نصیحت پر غور کرے دنیا،دنیوی مال و دولت اور جاہ و اقتدار کی اصلیت تھوڑی دیر کے لئے اس پر ضرورواضح ہوجائے گی۔یہ اور بات ہے کہ ہارون کی طرح اکثر لوگ اس حقیقت کو دیکھ کر اسے ان دیکھا کر دیں ۔اگر مال و دولت ِدنیاانسان کی زندگی کا مقصد بن جائے تو یہ ایک بہت بڑافتنہ اور ہر خرابی اور ویرانگری کا اصل سبب بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ دنیا کی محبت ہر گناہ کا سر ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ اگر دنیا کی محبت ختم ہوجائے تو ہر قسم کے گنا ہ اور ہر قسم کے ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہو جائے گا اور معاشرہ جرائم سے پاک ہوجائے گا۔حبّ ِدنیا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مفاسد اور فتنوں کی وجہ سے ہی تمام ادیان و مذاہب میں حب دنیا اور خواہش ِ دنیاکی شدید ترین مذمت کی گئی ہے اور اسے پست اور قابل نفرت قرار دیا گیا ہے۔
خود لفظ ’’دنیا ‘‘پر ہی غور کر لیں تو اس کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ہماری زبان میں دو لفظ بہت کثرت سے استعمال ہوتے ہیں: اعلیٰ اور ادنیٰ۔عربی گرامر کی رو سے یہ دونوں اسمِ صفت اور مذکر ہیں۔ان میں سے اعلیٰ کی مؤنث عُلیا اور ادنی کی مؤنث دنیا ہے۔قرآن مجید میں یہ لفظ اسم صفت کے طور پر استعمال ہو ا ہے: الحیاۃ الد نیا یعنی پست اور گھٹیا زندگی۔اس کے بر عکس آخرت کی زندگی کو ہی حقیقی اور اعلیٰ زندگی قرار دیا گیا۔
اپنے زمانہ حکومت میں ایک مرتبہ حضرت علی ؑ اپنے دست مبارک سے اپنے پرانے اور بوسیدہ جوتے کی مرمت کر رہے تھے۔اسی اثنا میں عبداللہ ابن عباس بھی وہاں آگئے۔حضرت علی نے ابن عباس کے کہا : ابن عباس تمہاری نظر میں اس جوتے کی کیا قیمت ہوگی؟ابن عباس نے جوتے کی طرف دیکھا،تھوڑا سا سوچا اور پھر کہنے لگے : ’’یا امیر المؤمنین ! یہ جوتا اس قدر پرانا اور بوسیدہ ہے کہ اگر اسے پھینک دیا جائے تو کوئی غریب اورضرورتمند بھی اسے اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔‘‘یہ سن کر حضرت علی ؑ نے فیصلہ کن انداز میں فرما یا: ’’ ابن عباس ! یہ پرانا اورگھسا پٹا جوتا میری نظر میں تم لوگوں پر حکومت کر نے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ہاں اگر حکومت کا مقصد حق کو قائم کرنا اور باطل کو مٹانا ہو تو اور بات ہے۔‘‘
لیکن ان سب باتوں سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے کہ انسان تارک الدنیا ہو کر جنگلوں میں نکل جائے۔بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہ کر اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو بہتر بنائے اور اپنی آخرت کے لئے کام کرے۔ایک حدیث میں ہے کہ جس نے دنیا کی خاطر آخرت کو ترک کردیا یا آخرت کی خاطر دنیا کو ترک کردیا وہ ہم میں سے نہیں۔اسلام دنیا اور آخرت کے بارے ایک اعتدال اور توازن کی راہ اپنانے کی تاکید کرتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے قرآن مجید میں دنیا کا لفظ بھی 115مرتبہ اور آخرت کا لفظ بھی 115مرتبہ استعمال ہو ہے۔اسلام کی منطق یہ ہے کہ اے ہمارے رب تو ہمیں دنیا میں بھی اچھی زندگی عطافرما اور آخرت میں بھی اچھی زندگی عطا فرما اور ہم کو جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔